 |
اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم (اپنے) دوستی کے باعث اُن تک خبریں پہنچاتے ہو حالانکہ وہ اس حق کے ہی مُنکر ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے، وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور تم کو اس وجہ سے (تمہارے وطن سے) نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر جو تمہارا پروردگار ہے، ایمان لے آئے ہو۔ اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری رضا تلاش کرنے کے لئے نکلے ہو (تو پھر اُن سے دوستی نہ رکھو) تم اُن کی طرف دوستی کے خفیہ پیغام بھیجتے ہو حالانکہ میں خوب جانتا ہوں جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم آشکار کرتے ہو، اور جو شخص بھی تم میں سے یہ (حرکت) کرے سو وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا ہے،
|
 |
اگر وہ تم پر قدرت پا لیں تو (دیکھنا) وہ تمہارے (کھلے) دشمن ہوں گے اور وہ اپنے ہاتھ اور اپنی زبانیں تمہاری طرف برائی کے ساتھ دراز کریں گے اور آرزو مند ہوں گے کہ تم (کسی طرح) کافر ہوجاؤ،
|
 |
تمہیں قیامت کے دن ہرگز نہ تمہاری (کافر و مشرک) قرابتیں فائدہ دیں گی اور نہ تمہاری (کافر و مشرک) اولاد، (اُس دن اللہ) تمہارے درمیان مکمل جدائی کر دے گا (مومن جنت میں اور کافر دوزخ میں بھیج دیئے جائیں گے)، اور اللہ اُن کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے جو تم کر رہے ہو،
|
 |
بیشک تمہارے لئے ابراہیم (علیہ السلام) میں اور اُن کے ساتھیوں میں بہترین نمونۂ (اقتداء) ہے، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: ہم تم سے اور اُن بتوں سے جن کی تم اللہ کے سوا پوجا کرتے ہو کلیتہً بیزار (اور لاتعلق) ہیں، ہم نے تم سب کا کھلا انکار کیا ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی اور نفرت و عناد ہمیشہ کے لئے ظاہر ہوچکا، یہاں تک کہ تم ایک اللہ پر ایمان لے آؤ، مگر ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے (پرورش کرنے والے) باپ سے یہ کہنا کہ میں تمہارے لئے ضرور بخشش طلب کروں گا، (فقط پہلے کا کیا ہوا ایک وعدہ تھا جو انہوں نے پورا کر دیا اور ساتھ یوں جتا بھی دیا) اور یہ کہ میں تمہارے لئے (تمہارے کفر و شرک کے باعث) اللہ کے حضور کسی چیز کا مالک نہیں ہوں۔ (پھر وہ یہ دعا کر کے قوم سے الگ ہوگئے:) اے ہمارے رب! ہم نے تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور ہم نے تیری طرف ہی رجوع کیا اور (سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہے،
|
 |
اے ہمارے رب! تو ہمیں کافروں کے لئے سببِ آزمائش نہ بنا (یعنی انہیں ہم پر مسلّط نہ کر) اور ہمیں بخش دے، اے ہمارے پروردگار! بیشک تو ہی غلبہ و عزت والا بڑی حکمت والا ہے،
|